*معرکۂ بدر: اسلام کی سچائی اور فتح مبین کا دل کش نظارہ*
غلام مصطفٰی رضوی٭
اللہ تعالیٰ نے فضل فرمایا… اپنا محبوب صلی اللہ علیہ وسلم بھیج کر بابِ رسالت مکمل کر دیا… بہاروں کی زمیں پر انبیا کی آمد ہوتی رہی… محبوبِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو پتھروں کی زمیں پر بھیجا… ریگ زارِ عرب میں بھیجا…اہلِ باطل کے معبودانِ باطلہ بھی پتھر کے تھے… سچائی کا آوازہ بلند ہوا… حرا کی وادیوں سے علم ویقیں کا اُجالا پھیلا… وادیِ مکہ مکرمہ نغماتِ توحید و رسالت سے گونج گونج اُٹھی… سردارانِ قریش، آقایانِ کفر لرزہ بر اَندام ہو گئے…اُنھیں پیغمبر آخرالزماں صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوتِ فطرت ایک آنکھ نہ بھائی… جور وستم کے پہاڑ توڑے گئے… ایذا دی گئی… سَتایا گیا… سماجی بائیکاٹ کیا گیا… ظلم شباب کو پہنچا… ہجرت کا عظیم مرحلہ درپیش آیا… اوّل جانبِ حبشہ ہجرت کی گئی… رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ منورہ ہجرت فرما ہوئے… جو ہماری تاریخ کا ایک اہم باب ہے…ہجرت کی ہر ساعت معجزوں کی نورانی قندیل سے روشن ہے… اہلِ مدینہ مسرور ہو اُٹھے کہ اللہ کے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے آئے… وادیِ طیبہ -طَلَعَ الْبَدْرُ عَلَیْنَا- کے والہانہ نغموں سے گونج گونج اُٹھی۔اور یہ نغمۂ مدحت بھی بچیوں کی زباں پر جاری تھا ؎
نَحْنُ جَوَارٍ مِّنْ بَّنِیْ النَّجَّارٖ
یَا حَبَّذَا مُحَمَّدٌ مِّنْ جَارٖ
’’ہم خاندانِ بنو النجار کی بچیاں ہیں، واہ کیا ہی خوب ہوا کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پڑوسی ہو گئے…‘‘
ابھی ہجرت کا مرحلۂ شوق جاری تھا… اصحابِ رسولﷺ کی اِملاک کو کفار نے ضبط کرنا شروع کیا… اسلام کے خلاف اُن کی ریشہ دوانیاں حدیں پار کر گئیں… رسول گرامی وقار صلی اللہ علیہ وسلم کی شانِ اقدس میں جرأت کی جا رہی تھی… دوسری سمت زنگ آلود دل مائل بہ اسلام تھے… قبولِ اسلام کا کارواں تیزگام ہو رہا تھا…کُفر کا زور ٹوٹتا جا رہا تھا…تاریک دِل جگمگانے لگے…بُجھی بُجھی طبیعتیں کھلنے لگیں… خطۂ عرب ایسے انقلاب سے گزر رہا تھا جس کے خوش گوار اَثرات جلد ہی پوری کائنات پر رُونما ہونے والے تھے… کفار نے ٹھان لیا تھا کہ اسلام کی روشنی بُجھا دیں گے… ناموسِ رسالتﷺ کے جتنے دُشمن تھے سب یکجا تھے… اُن کی نگاہیں جانبِ طیبہ لگی ہوئی تھیں… وہ اِس وہم میں تھے کہ چراغِ مصطفوی بُجھ جائے گا…
*عہدِ وفا:*
اہلِ مدینہ نازاں تھے کہ محبوب صلی اللہ علیہ وسلم جلوہ گر ہیں… اصحاب و انصار محبوب صلی اللہ علیہ وسلم کی ناموس کے لیے جان نچھاور کرنے کو ہر آن آمادہ تھے…گرچہ اب تک جور و زیادتی اور ظلم و ستم پرصبر ہی کیا گیا تھا؛ لیکن اب تقاضا تھا کہ باطل کو سرنگوں کیا جائے اور ظلم کے پنجوں کو مروڑ دیا جائے… ۲؍ ہجری میں حکمِ الٰہی نازل ہوا کہ… ’’خدا کی راہ میں ان لوگوں سے لڑو جو تم لوگوں سے لڑتے ہیں۔‘‘… اِس لیے جہاد کے لیے قصد فرمایا گیا…صحابۂ کرام و انصار نے جاں نثاری کا عہدِ وفا کیا… بخاری شریف کی روایت میں یہ الفاظ محفوظ ہیں :’’ہم بنی اسرائیل کی طرح نہیں؛ جنھوں نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو تنہا چھوڑ دیا،ہم آپ کے دائیں بائیں اور آگے پیچھے چاروں طرف سے لڑیں گے۔‘‘… راویِ حدیث حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: میں نے اس وقت دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرۂ انور فرطِ مسرت سے چمک اُٹھا ۔ (بخاری شریف، جلد۲،صفحہ۵۶۴)
انصار کی نیابت میں حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ نے جو تاریخی الفاظ ارشاد فرمائے وہ اس طرح ہیں:
’’ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہم آپ پر ایمان لائے ہیں ۔ہم نے آپ کی اطاعت کا عہد کر رکھا ہے، جو حکم ہو گا اسے بجالائیں گے۔ آپ بلا تأمل اپنا ارادہ پورا فرمائیں ۔ہم دل و جان سے آپ کا ساتھ دیں گے… قسم ہے اُس ذاتِ پاک کی جس نے آپ کو حق دے کر بھیجا ہے؛ اگر آپ ہم کو سمندر میں کود جانے کا حکم دیں گے تو ہم سارے سمندر میں کود پڑیں گے اور ہم میں سے ایک شخص بھی پیچھے نہ رہے گا۔‘‘
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اصحاب رضی اللہ عنہم کے یہ جاں نثارانہ جوابات سُن کر مسرور ہوئے اور فرمایا: ’’اللہ کے نام پر چلو، تمہیں خوش خبری ہو کیوں کہ اللہ تعالیٰ نے مجھ سے یہ وعدہ فرمایا ہے کہ ابوجہل یا ابوسفیان کی دو جماعتوں میں سے کسی ایک جماعت پر ضرور فتح و نصرت عطا کروں گا۔‘‘ (زرقانی، جلد۱، صفحہ۶۱۶)
No comments:
Post a Comment