《📖سلسلہ عجائب القرآن📖》
[پوسٹ:- 06]
{سورہ بقرہ میں ''پتھر''سے یہی پتھر مراد ہے۔}
ایک شبہ کا
ازالہ:۔معجزات کے منکرین جو ہر چیز کو اپنی ناقص عقل کی عینک ہی سے دیکھا کرتے ہیں۔
اس پتھر سے پانی کے چشموں کا جاری ہونا محال قرار دے کر اس معجزہ کا انکار کرتے
ہیں اور کہتے ہیں کہ ہماری عقل اس کو قبول نہیں کرسکتی کہ اتنے چھوٹے سے پتھر سے
بارہ چشمے جاری ہو گئے۔ "حالانکہ یہ منکرین اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں کہ
بعض پتھروں میں خداوند تعالی نے یہ تاثیر پیدا فرمادی ہے کہ وہ بال مونڈدیتے ہیں،
بعض پتھروں کا یہ اثر ہے کہ وہ سرکہ کو تیز اور ترش بنا دیتے ہیں، "بعض
پتھروں کی یہ خاصیت ہے کہ وہ لوہے کو دور سے کھینچ لیتے ہیں،بعض پتھروں سے موذی
جانور بھاگ جاتے ہیں،بعض پتھروں سے جانوروں کا زہر اتر جاتاہے، بعض پتھر دل کی
دھڑکن کے لئے تریاق ہیں، بعض پتھروں کو نہ آگ جلا سکتی ہے نہ گرم کرسکتی ہے، بعض
پتھروں سے آگ نکل پڑتی ہے، بعض پتھروں سے آتش فشاں پھٹ پڑتا ہے تو جب خداوند قدوس
نے پتھروں میں قسم قسم کے اثرات پیدا فرما دیئے ہیں" تو پھر اس میں کون سی
خلاف عقل اور محال بات ہے کہ حضرت موسی علیہ السلام کے اس پتھر میں اللہ تعالی نے
یہ اثر بخش دیا اور اس میں یہ خاصیت عطا فرما دی کہ وہ زمین کے اندر سے پانی جذب
کر کے چشموں کی شکل میں باہر نکالتا رہے یا اس پتھر میں یہ تاثیر ہو کہ جو ہوا اس
پتھر سے ٹکراتی ہو وہ پانی بن کر مسلسل بہتی رہے یہ خداوند قادر و قدیر کی قدرت سے
ہرگز ہرگز نہ کوئی بعید ہے نہ محال نہ خلاف عقل۔ لہذا اس معجزہ پر ایمان لانا
ضروریات دین میں سے ہے اور اس کا انکار کفر ہے۔ قرآن مجید میں ہے:۔
○و
ان من الحجارۃ لما یتفجر منہ الانہر و ان منہا لما یشقق فیخرج منہ الماء و ان منہا
لما یہبط من خشیۃ اللہ○
ترجمہ کنزالایمان:۔اور
پتھروں میں تو کچھ وہ ہیں جن سے ندیاں بہہ نکلتی ہیں اور کچھ وہ ہیں جو پھٹ جاتے
ہیں تو ان سے پانی نکلتا ہے اور کچھ وہ ہیں کہ اللہ کے ڈر سے گر پڑتے ہیں۔
(پ1،البقرۃ:74)
No comments:
Post a Comment